لفظوں کے تلاطم میں آہنگ جگا بیٹھے
لفظوں کے تلاطم میں آہنگ جگا بیٹھے
تم نے تو غزل گائی ہم ہوش بھلا بیٹھے
ایسی بھی شکایت کیا بے باک نگاہی سے
آئینہ دکھایا تھا چہرہ ہی چھپا بیٹھے
کیا کیا نہ گماں گزرا کیا کیا نہ خیال آیا
کیا کیا نہ بنی دل پر ہم فون اٹھا بیٹھے
اے وائے وہ نادانی اے وائے یہ دانائی
دنیا نے تو کیا لوٹا ہم خود کو لٹا بیٹھے
کیا کیا نہ زمانے کے دامن سے ہوا بھڑکی
چھاؤں تھی ذرا ٹھنڈی ہم دھوپ میں جا بیٹھے
ایام کے چہرے کو جب دھوپ جھلستی ہو
کوہرائی سی یادوں کی ہم شمع جلا بیٹھے
ارمان مچلتے ہیں لہروں کی نگاہوں میں
ہم وقت کے ساحل پر دو پھول کھلا بیٹھے
کچھ بات رہی ہوگی کچھ ڈانٹ پڑی ہوگی
وہ روئے تھے ہم اس دن اس کو ہی رلا بیٹھے
پھولوں کی بلائیں لو کانٹوں کو دعائیں دو
گلشن کی اداؤں کو کیا دل سے لگا بیٹھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.