لگا کے دھڑکن میں آگ میری برنگ رقص شرر گیا وہ
لگا کے دھڑکن میں آگ میری برنگ رقص شرر گیا وہ
مجھے بنا کے سلگتا صحرا مرے جہاں سے گزر گیا وہ
یوں نیند سے کیوں مجھے جگا کر چراغ امید پھر جلا کر
ہوئی سحر تو اسے بجھا کر ہوا کے جیسا گزر گیا وہ
وہ ریت پر اک نشان جیسا تھا موم کے اک مکان جیسا
بڑا سنبھل کر چھوا تھا میں نے پہ ایک پل میں بکھر گیا وہ
وہ ساتھ میرے تھا جیسے ہر پل وہ دیکھتا تھا مجھے مسلسل
ذرا سا موسم بدل گیا تو چرا کے مجھ سے نظر گیا وہ
وہ ایک بچھڑے سے میت جیسا وہ اک بھلائے سے گیت جیسا
کوئی پرانی سی دھن جگا کر وجود و دل میں اتر گیا وہ
وہ دوست سارے تھے چار پل کے جو چل دیئے ہم سفر بدل کے
سحابؔ ناداں وہیں کھڑا ہے اسی ڈگر پر ٹھہر گیا وہ
- کتاب : Mujalla Dastavez (Pg. 674)
- Author : Aziz Nabeel
- مطبع : Edarah Dastavez (2013-14)
- اشاعت : 2013-14
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.