لگتا ہے ہمیشہ سے اسی کام لگے ہیں
لگتا ہے ہمیشہ سے اسی کام لگے ہیں
یہ پیڑ مشقت پہ سر عام لگے ہیں
دن رات مناسب نہیں مہنگائی کا رونا
یوسف سے بہت سستے مرے دام لگے ہیں
اس صبح کے ہونے میں ابھی رات پڑی ہے
جس صبح کی کوشش میں سر شام لگے ہیں
پھل-پھول درختوں پہ کھلا کرتے ہیں جیسے
اس طرح مرے رنج کو آلام لگے ہیں
اک بار مجھے پھر یہ صفائی نہیں دینی
پہلے بھی کئی بار یہ الزام لگے ہیں
کیا تیشۂ فرہاد ہے کیا دشت نوردی
یہ پختہ ارادے تو سبھی خام لگے ہیں
ہونٹوں پہ ابھی تک ہیں ترے ہونٹوں کی مہریں
ہم ہیں کہ ہمیشہ سے ترے نام لگے ہیں
یہ نامۂ اعمال ذرا دیر مؤخر
تھک ہار کے کرنے ابھی آرام لگے ہیں
کم ظرف سے مسعودؔ بھلائی کی توقع
کیکر کے درختوں پہ کبھی آم لگے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.