لہروں کے مسافر تھے کناروں کے مکیں تھے
لہروں کے مسافر تھے کناروں کے مکیں تھے
ہم تیرہ نورد ایسے کہ صبحوں کے مکیں تھے
اشکوں کے لبادے میں نکل آئے تھے گھر سے
کچھ خواب پریشان سی آنکھوں کے مکیں تھے
کچھ لوگ قبیلوں کی روایات سے نکلے
وہ لوگ جو سنگلاخ زمینوں کے مکیں تھے
اس شہر نے فطرت پہ بڑا ظلم کیا ہے
اک چاند تھا کچھ پھول جو جھیلوں کے مکیں تھے
جدت بھری دنیا میں کھڑے سوچ رہے ہیں
تب خوب تھے جب ہم سبھی غاروں کے مکیں تھے
ہم لوگ ستاروں کو سمجھتے رہے صابرؔ
ہم ایسے کہ گم گشتہ جزیروں کے مکیں تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.