لہو فشاں ہیں ورق اور دل تپیدہ ہیں
لہو فشاں ہیں ورق اور دل تپیدہ ہیں
ادیب شہر کے اب بھی قلم بریدہ ہیں
نہ اذن آہ و فغاں ہے کہ نوحۂ ہستی
کسے سنائیں جو الفاظ خوں چکیدہ ہیں
کبھی زبانیں نکل آئیں خارزاروں کی
شجر چمن کے خموشی سے سر خمیدہ ہیں
نہیں معاف میرے گھر میں جرم حق گوئی
سنبھل کے دیکھ شہر میں جو سر کشیدہ ہیں
بس اتنا سوچ کے خود کو سنبھال لیتے ہیں
جہاں میں ہم سے بھی بڑھ کر ستم رسیدہ ہیں
تمہارے ملنے سے پہلے نہ تھا کوئی مذہب
بچھڑ کے تم سے مگر آج با عقیدہ ہیں
ہمارے واسطے دامان دوستاں تنگ ہے
ہمیں سلام کرو ہم وفا گزیدہ ہیں
ابھی تو غم کے شجر پہ کھلی ہیں کچھ کلیاں
ابھی تو پلکوں پہ کچھ تارے نو دمیدہ ہیں
یہ کیسا دور ہے زیباؔ کہ اشک تک چپ ہیں
سجا لبوں پہ تبسم ہے دل کبیدہ ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.