لہو کے عکس میں مجھ کو شمار کرتا تھا
لہو کے عکس میں مجھ کو شمار کرتا تھا
وہ شاخ شاخ عجب انتشار کرتا تھا
ڈھکیل دیتا تھا خوابوں کے اک جزیرے میں
دعا بھی میرے لئے بار بار کرتا تھا
نظر پہ میری بچھاتا تھا صبح منظر گیر
قدم پہ میرے شب تار تار کرتا تھا
طلوع صبح سے پہلے وہ ڈوبتا تھا مگر
غروب شام سے دل بے قرار کرتا تھا
جو ایک شخص اکیلا گزر گیا مجھ سے
بتاؤں کیسے کہ وہ کتنا پیار کرتا تھا
سرائے جاں میں سجاتا تھا شام شام کے رنگ
کچھ اس طرح سے مجھے بے شمار کرتا تھا
کبھی کبھار جو ملتا بھی تھا اندھیروں میں
تو روشنی کا بدن اختیار کرتا تھا
یہ فائدہ تو رہا اس بدن میں رہنے کا
وہ مجھ پہ لطف نظر بار بار کرتا تھا
برہنہ کر کے مرے سامنے مرا سایہ
ظہور ذات کا بس انتظار کرتا تھا
خموش رہتا تھا پہروں ہمارے دھیان میں وہ
اور آندھیوں میں سخن بار بار کرتا تھا
دکھا سکا نہ کوئی کھیل برگ خشک میں وہ
جو شاخ سبز میں لیل و نہار کرتا تھا
وہ دور دور دکھاتا تھا رقص شعلۂ جاں
بڑھوں جو آگے تو مجھ سے فرار کرتا تھا
اٹھا کے پھینکتا مجھ کو وہی خلاؤں میں
جو گرد بن کے مجھے شہسوار کرتا تھا
میں واقعہ ہوں اسی ذوق کم نصیب کا جو
بلائے جاں تھا مگر جاں نثار کرتا تھا
یہیں کہیں پہ وہ چنتا تھا پھول یادوں کے
یہیں کہیں پہ مرا انتظار کرتا تھا
کبھی کبھی وہ اترتا تھا میرے لہجے میں
کبھی کبھی تو بہت بے قرار کرتا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.