لہو کی بے بسی کو یوں نہ رسوا چھوڑ دینا تھا
لہو کی بے بسی کو یوں نہ رسوا چھوڑ دینا تھا
کچھ اس میں غیرت جاں کا حوالہ چھوڑ دینا تھا
میں آئینوں میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں خود نہیں ملتا
مرے چہروں میں کوئی میرا چہرہ چھوڑ دینا تھا
عجب گھر ہیں کہ جن میں کوئی کھڑکی ہے نہ دروازہ
ہوا کے آنے جانے کا تو رستہ چھوڑ دینا تھا
عبث ساحل پہ تم لہروں کو کیوں گن رہے یوں ہی
جو خواہش موتیوں کی تھی کنارہ چھوڑ دینا تھا
انہیں تو کربلا کی تشنگی آواز دیتی تھی
وہ دریا تھے انہیں شہر مدینہ چھوڑ دینا تھا
فسادوں کے زمانے میں سکوں اچھا نہیں لگتا
کسی افواہ کا کوئی شگوفہ چھوڑ دینا تھا
نمود و نام نے کس کو کہاں پر کب سکوں بخشا
میاں اس کے لیے شہرت کا سودا چھوڑ دینا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.