لہو میں ڈوب کے ابھروں تو سانس جلتا ہو
لہو میں ڈوب کے ابھروں تو سانس جلتا ہو
ہوا کے ہونٹوں پہ خوشبو کا سرد قصہ ہو
سمندروں میں اتر کر بھی جل رہا ہوں میں
کہیں تو سرد ہواؤں نے سر اٹھایا ہو
پروؤں شاخوں کی پلکوں میں تتلیوں کے پر
کہ فصل مرگ میں رنگوں کا اک تماشا ہو
وہی فضا ہو وہی پاؤں کے تلے مٹی
جدھر بھی جاؤں پرانے دنوں کا چرچا ہو
پرائے شہروں میں ہر لمحہ چونک چونک پڑوں
مرے نواح مرے اپنے گھر کا سایا ہو
کسی کے کرب کی خوشبو کے سائے میں احمدؔ
مرے ہی صحن میں سویا ہوا شرارہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.