لہو میں ڈوبا ہوا چاند بے لحاف بھی ہو
لہو میں ڈوبا ہوا چاند بے لحاف بھی ہو
بدن میں رینگتے سائے کا انکشاف بھی ہو
یہ بند آنکھوں میں سپنے کہاں سے آتے ہیں
ردائے نیند میں شاید کوئی شگاف بھی ہو
کبھی کبھار کوئی رت ہو بھیگنے والی
کبھی کبھار یہ چہرے کی گرد صاف بھی ہو
ملا ہے زخم تو اس زخم کے بھرم کے لیے
مرے لبوں پہ تبسم کا اک غلاف بھی ہو
میں اپنے آپ میں بیدار رہنا چاہتا ہوں
کبھی کبھی کوئی سازش مرے خلاف بھی ہو
مرے رفیق تکلف کے دائرے سے نکل
کہ اتفاق میں تھوڑا سا اختلاف بھی ہو
یہ کیا کہ میری ہر اک بات مستند ہو جائے
مزہ تو جب ہے کہ لوگوں کو انحراف بھی ہو
- کتاب : دل پرندہ ہے (Pg. 53)
- Author :شکیل اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.