لہو میں غرق ادھوری کہانیاں نکلیں
لہو میں غرق ادھوری کہانیاں نکلیں
دہن سے ٹوٹی ہوئی سرخ چوڑیاں نکلیں
میں جس زمین پہ صدیوں پھرا کیا تنہا
اسی زمین سے کتنی ہی بستیاں نکلیں
جہاں محال تھا پانی کا ایک قطرہ بھی
وہاں سے ٹوٹی ہوئی چند کشتیاں نکلیں
مسل دیا تھا سر شام ایک جگنوں کو
تمام رات خیالوں سے بجلیاں نکلیں
چرا لیا تھا حویلی کا اک چھپا منظر
اسی گناہ پر آنکھوں سے پتلیاں نکلیں
وہ اک چراغ جلا اور وہ روشنی پھیلی
وہ رہزنی کے ارادے سے آندھیاں نکلیں
وہ بچ سکیں نہ کبھی بوالہوس پرندوں سے
حصار آب سے باہر جو مچھلیاں نکلیں
خدا کا شکر کہ اس عہد بے لباسی میں
یہ کم نہیں کہ درختوں میں پتیاں نکلیں
یہی ہے قصر محبت کی داستاں کاظمؔ
گری فصیل تو انساں کی ہڈیاں نکلیں
- کتاب : کتاب سنگ (Pg. 19)
- Author : کاظم جرولی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.