لہو سے تر جو خنجر ہیں یہ نفرت کی تمازت ہے
لہو سے تر جو خنجر ہیں یہ نفرت کی تمازت ہے
کہ اب جنگل سے بھی بد تر مرے شہروں کی حالت ہے
کسی دن توڑنے والوں کو یہ احساس ہو اے کاش
مہکتا پھول ٹہنی پر محبت کی علامت ہے
بڑائی ہے میاں ساری کی ساری عقل و دانش سے
وگرنہ آدمی میں کب پہاڑوں جیسی طاقت ہے
سخی کچھ تو عطا ہو جائے اب تیرے خزانے سے
مرے دست دعا میں دیکھ میرے دل کی حاجت ہے
جو اپنی ذات میں گم ہیں بھلا ان کو خبر کیا ہو
بچھڑ کر خود سے جینے میں اذیت ہی اذیت ہے
نکل کر باغ جنت سے یہ کس دنیا میں آیا ہوں
جہاں جینا اذیت ہے جہاں مرنا مصیبت ہے
بس اک ٹوٹا ہوا دل ہے وجود خاک میں ناصرؔ
بتا اس آئنے کی اب کوئی جڑنے کی صورت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.