لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے
دلچسپ معلومات
15-09-1994 دہلی
لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے
وقت خوشبو ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے
آبگینوں کا شجر ہے کہ یہ احساس وجود
جب بکھرتا ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے
دل کا یہ شہر صدا اور یہ حسیں سناٹا
وادئ جاں میں اترتا ہی چلا جاتا ہے
اب یہ اشکوں کے مرقعے ہیں کہ سمجھتے ہیں نہیں
نقش پتھر پہ سنورتا ہی چلا جاتا ہے
خون کا رنگ ہے اس پہ بھی شفق کی صورت
خاک در خاک نکھرتا ہی چلا جاتا ہے
واپسی کا یہ سفر کب سے ہوا تھا آغاز
نقش پا جس کا ابھرتا ہی چلا جاتا ہے
جیسے تنویرؔ کے ہونٹوں پہ لکھی ہے تاریخ
ذکر کرتا ہے تو کرتا ہی چلا جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.