لمحہ لمحہ وسعت کون و مکاں کی سیر کی
لمحہ لمحہ وسعت کون و مکاں کی سیر کی
آ گیا سو خوب میں نے خاکداں کی سیر کی
ایک لمحے کے لیے تنہا نہیں ہونے دیا
خود کو اپنے ساتھ رکھا جس جہاں کی سیر کی
تجھ سے مل کر آج اندازہ ہوا ہے زندگی
پہلے جتنی کی وہ گویا رائیگاں کی سیر کی
نیند سے جاگے ہیں کوئی خواب بھی دیکھا ہے کیا
دیکھا ہے تو بولئے شب بھر کہاں کی سیر کی
تھک گیا تھا میں بدن میں رہتے رہتے ایک دن
بھاگ نکلا اور جا کر آسماں کی سیر کی
یاد ہے اک ایک گوشہ نقش ہے دل پر ہنوز
سیر تو وہ ہے جو شہر دلبراں کی سیر کی
پھول حیرت سے ہمیں دیکھا کیے وقت وصال
گل بدن کے ساتھ آذرؔ گلستاں کی سیر کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.