لرز رہا تھا فلک عرض حال ایسا تھا
لرز رہا تھا فلک عرض حال ایسا تھا
شکستگی میں زمیں کا سوال ایسا تھا
کمال ایسا کہ حیرت میں چرخ نیلی فام
شجر اٹھا نہ سکا سر زوال ایسا تھا
کسی وجود کی کوئی رمق نہ ہو جیسے
دراز سلسلۂ ماہ و سال ایسا تھا
کھلا ہوا تھا بدن پر جراحتوں کا چمن
کہ زخم پھیل گیا اندمال ایسا تھا
کبھی یہ تخت سلیماں کبھی صبا رفتار
نشہ چڑھا تو سمند خیال ایسا تھا
گھرے ہوئے تھے جو بادل برس کے تھم بھی گئے
بچھا ہوا تھا جو تاروں کا جال ایسا تھا
کبھی وہ شعلۂ گل تھا کبھی گل شعلہ
مزاج حسن میں کچھ اعتدال ایسا تھا
وہ آنکھیں قہر میں بھی کر گئیں مجھے شاداب
فروغ بادہ میں رنگ جمال ایسا تھا
کسی سے ہاتھ ملانے میں دل نہیں ملتا
طلب میں شائبہ احتمال ایسا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.