لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر
نہ چھوڑی حضرت یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
فنا تعلیم درس بے خودی ہوں اس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر
فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمکداں پر
نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومار ناز ایسا
کہ پشت چشم سے جس کی نہ ہووے مہر عنواں پر
مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر
بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہوگا
قیامت اک ہوائے تند ہے خاک شہیداں پر
نہ لڑ ناصح سے غالبؔ کیا ہوا گر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
دل خونیں جگر بے صبر و فیض عشق مستغنی
الٰہی یک قیامت خاور آ ٹوٹے بدخشاں پر
اسدؔ اے بے تحمل عربدہ بیجا ہے ناصح سے
کہ آخر بے کسوں کا زور چلتا ہے گریباں پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.