لوح امکان پہ ہستی کا بھرم کھلتا ہے
لوح امکان پہ ہستی کا بھرم کھلتا ہے
جانے کب عقدۂ موجود و عدم کھلتا ہے
رنگ و آہنگ بھی ہوتے ہیں وہاں دست دراز
اس پری زاد کا جب باب کرم کھلتا ہے
شام ہوتے ہی یہاں آمد مہتاب کے ساتھ
خانۂ دل میں تری یاد کا غم کھلتا ہے
ہم کوئی بات تیقن سے نہیں کہہ سکتے
ہم پہ اسرار زمانہ ابھی کم کھلتا ہے
یوں بکھرتے ہیں خیالوں میں ترے حسن کے رنگ
دشت پر جیسے کسی ابر کا نم کھلتا ہے
خطرۂ جاں ہے رہ عشق میں لیکن مختارؔ
راہ دشوار پہ چلنے سے قدم کھلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.