لے لیا وعدہ ان کے آنے کا
لے لیا وعدہ ان کے آنے کا
اب مقدر غریب خانے کا
کھل گیا راز مسکرانے کا
تم کو نکتہ ملا بہانے کا
روز ہی انقلاب آتے ہیں
کیا بھروسہ کسی زمانے کا
ایک صیاد ایک میں اک برق
سب کو ارماں ہے آشیانے کا
دل میں بھی کچھ ہے اے جبین نیاز
تو تو ہے نقش آستانے کا
تم تو ہونے لگے ہو سنجیدہ
اب میں آنسو نہیں بہانے کا
جانیں انجام برق یا صیاد
ہے تو آغاز آشیانے کا
قسمت عشق یا ہو دولت حسن
کس کو شکوہ نہیں زمانے کا
اشک رنگیں مرا فسانہ ہے
زندگی نام ہے فسانے کا
یاس ہے اک ہرا بھرا بوٹا
میرے دل کے نگار خانے کا
خوف صیاد سے لرزتا ہوں
دل ہوں میں اپنے آشیانے کا
زندگی ہارنے لگی ہمت
اب رہا کیا ہے آزمانے کا
گل کی خاطر چمن میں بستے ہیں
اور بہانہ ہے آشیانے کا
محفل غیر میں ذرا بچ کر
میں کہیں تم کو یاد آنے کا
ساتھ توبہ لگی ہوئی تھی ذکیؔ
اور کھلا در شراب خانے کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.