لیجئے تابانیٔ عالم کے ساماں ہو گئے
لیجئے تابانیٔ عالم کے ساماں ہو گئے
دل کے ذرے اڑ کے ہر جانب پریشاں ہو گئے
درد تنہائی سے مر جانا تو کچھ مشکل نہ تھا
کیا کہیں غم سے مگر کچھ عہد و پیماں ہو گئے
التفات دوست کا ممکن نہیں کوئی صلہ
کم ہے جان و دل جو صرف شکر احساں ہو گئے
تجھ سے کیا لیں انتقام اے خاک بے برگ و نوا
وہ کہاں ہیں مہر و مہ تجھ میں جو پنہاں ہو گئے
دعوت جلوہ ہے پھر برق نگاہ ناز کو
جمع پھر ہستی کے اجزائے پریشاں ہو گئے
اب میں سمجھا سینۂ سوزاں کے شق ہونے کا راز
آپ پنہاں کیا ہوئے گویا نمایاں ہو گئے
جن کو ہونا ہی نہ تھا راہ محبت میں غبار
کس طرح وہ خاک کے پتلے پھر انساں ہو گئے
خاک دل کے چند ذرے اڑ گئے تھے ایک دن
بن کے تارے آسمانوں پر درخشاں ہو گئے
کچھ خیال دوست آیا تھا کہ آ پہنچی بہار
جس طرف دیکھا گلستاں ہی گلستاں ہو گئے
حسن نے روز ازل جب رخ سے سرکائی نقاب
چند جلوے رنگ بن کر بزم امکاں ہو گئے
چھا رہا ہے رنگ ہر جانب بہار حسن کا
وا ہیں جن کے دیدۂ دل گل بداماں ہو گئے
رفتہ رفتہ آرزوئے رستگاری مٹ گئی
رہ کے زنداں میں جگرؔ آزاد زنداں ہو گئے
- کتاب : Partav-e-ilhaam (Pg. 66)
- Author : Jigar Barelvi
- مطبع : Publisher Nizami Book Agency, Budaun (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.