لکھا جو یار کو مضمون وصل کا کاغذ
لکھا جو یار کو مضمون وصل کا کاغذ
ہوائے شوق میں پھر کر ہوا ہوا کاغذ
پیامبر مجھے دشمن ملا نصیبے سے
عدو کے آگے مرا اس کو جا دیا کاغذ
خبر ہی لے جو نہ تو اس مریض الفت کی
نہ کیونکہ پہنچے تجھے تیرا مبتلا کاغذ
کیے جو سوز محبت کے کچھ رقم مضمون
تو جل کے خاک وہیں دم میں ہو گیا کاغذ
رقیب بن گئے الٹا جواب لکھوایا
یہ لے گئے تھی مرے خواب آشنا کاغذ
ہمیشہ سینہ پہ ہیں گل رخوں کی تصویریں
نصیب رکھتا ہے باغ جہاں میں کیا کاغذ
غرض ہمیں ہیں کہ کرتے ہیں خط پہ خط تحریر
غرض ہے کیا تجھے لکھے تری بلا کاغذ
غضب ہوا کہ ہوئے غیر راز سے واقف
پیامبر کی مگر جیب سے گرا کاغذ
جواب صاف دیا ہے یہ اس نے پردے میں
کہ سادہ بھیج دیا مجھ کو برملا کاغذ
نہ تھا رقیب کا گر خوف آپ کے دل میں
تو میرا بھیجا ہوا کیوں دکھا دیا کاغذ
بتوں سے رکھیو زبانی ہی راہ و رسم پیام
لکھا نہ دیجو حیاؔ اپنے ہاتھ کا کاغذ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.