لپٹی ہوئی پھرتی ہے نسیم ان کی قبا سے
لپٹی ہوئی پھرتی ہے نسیم ان کی قبا سے
گل کھلتے ہیں ہر گام پہ دامن کی ہوا سے
دل ایسا دیا کیوں کہ رہا کشتۂ جاناں
تم سے نہیں یہ شکوہ بھی کرنا ہے خدا سے
محرم ہیں ہمیں گرمئ گفتار سے ان کی
جو ہونٹ جو آنکھیں ہیں گراں بار حیا سے
آہستہ کرو چاک گلو اپنا گریباں
گونجے نہ چمن غنچوں کے ہنسنے کی صدا سے
کھولیں گے انہیں ہاتھوں کے ناخن گرہ دل
جو بستہ ہیں رنگینیٔ و خوشبوۓ حنا سے
تعبیر کے صحراؤں میں ہیں خواب پریشاں
دریا کو سرابوں سے صدا دیتے ہیں پیاسے
لیتے ہو اگر نام شہیداں تو ہے یہ شرط
جاں جائے رہے پا نہ ہٹیں راہ وفا سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.