لو پھر سمیٹ لیا شب نے تیرگی کا لباس
لو پھر سمیٹ لیا شب نے تیرگی کا لباس
پہن کے صبح چلی آئی روشنی کا لباس
سنے گا اب یہ زمانہ ہمارا ہر قصہ
اتار ڈالا ہے اب ہم نے خامشی کا لباس
ہے رقص برسوں سے گھڑیوں کے پاؤں پر وقت
بنا ہے لمحوں نے مل کر ہر اک صدی کا لباس
دکھی تھیں جھانکتی کچھ حسرتیں گریباں سے
تھا مفلسی کے بدن پے جو بے بسی کا لباس
خیال لفظوں میں ڈھل جاتے ہیں سلیقے سے
سکوں ملا ہے پہن کے سخن وری کا لباس
خدایا پھر اسے سیراب کر دے پانی سے
ندی کے جسم پہ دیکھا ہے تشنگی کا لباس
کبھی کسی کو نہ احساس کمتری ہو اب
ہو کاش سب کو میسر برابری کا لباس
ابھی بھی ٹھہری وہیں پر ہے زندگی میری
پہن لیا ہے غموں نے ہی اب خوشی کا لباس
کیا کرو کبھی اس کا بھی شکر دل سے ادا
عطا کیا ہے تمہیں جس نے آدمی کا لباس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.