لوگ جب زیست کے صحرا میں سمٹ جاتے ہیں
لوگ جب زیست کے صحرا میں سمٹ جاتے ہیں
ہر گھنی چھاؤں سے بیتاب لپٹ جاتے ہیں
زخم کے پھول حسیں جسم میں کھلتے ہیں جب
سیکڑوں ٹکڑوں میں ہم ٹوٹ کے بٹ جاتے ہیں
درد دل شیشۂ احساس کے رکھنے والے
دور تخریب کی ہر گرد میں لٹ جاتے ہیں
حادثے زیست میں کچھ ایسے بھی آتے ہیں کبھی
درس ہستی کی طرح لوگ انہیں رٹ جاتے ہیں
زندگی نرم خرامی سے گزر جائے گی
غم کے بادل کبھی گھرتے کبھی چھٹ جاتے ہیں
امن کو قتل اگر کرنے کی بات آتی ہے
رشتۂ شورش ہنگام سے کٹ جاتے ہیں
شدت حوصلہ جب بڑھ کے دکھا دیتا ہوں
لشکر آسیب کے آنگن سے پلٹ جاتے ہیں
مجھ سے اک شخص نے کیا خوب کہا تھا بیتابؔ
گہرے سائے بھی کڑی دھوپ میں گھٹ جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.