لوگ ملتے ہیں بچاتے ہوئے داماں مجھ سے
لوگ ملتے ہیں بچاتے ہوئے داماں مجھ سے
جانے کیا بات ہے رہتے ہیں گریزاں مجھ سے
میرؔ و غالبؔ کا ہے آباد دبستاں مجھ سے
ہلکا ہلکا ہے مگر ہے تو چراغاں مجھ سے
چھین سکتے ہو مرے ہاتھ سے شمشیر و سناں
پر یہ مقتل کے ہیں سب نقش و نگاراں مجھ سے
ایک اک بیل کو سینچا ہے لہو سے اپنے
متفق ہوں نہ ہوں یاران گلستاں مجھ سے
کہہ رہا ہے کہ ستم گر کے ستم بھی لکھ دے
میرے ہاتھوں کا قلم اور قلمداں مجھ سے
میں نے لکھا ہے قصیدہ نئی صبحوں والا
مرثیے اب نہ سنو گور غریباں مجھ سے
تیرے خوابوں کو خیالوں میں سجا لوں پھر سے
کچھ توقع تو رکھا کر دل ناداں مجھ سے
میرے دامن میں تو وحشت ہے جنوں ہے شاہدؔ
کیا سنور سکتی ہے تقدیر بیاباں مجھ سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.