لطف آمیز ہر انداز ستم ہوتا ہے
لطف آمیز ہر انداز ستم ہوتا ہے
درد بیمار نہ بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے
بے قراروں کو نہیں راہ طلب میں مشکل
اک تڑپ میں حد منزل پہ قدم ہوتا ہے
دیکھتا ہے جو مرا حال وہ رو دیتا ہے
میرے پردے میں زمانہ پہ ستم ہوتا ہے
خوگر جور کو آزار میں بھی راحت ہے
دل تڑپتا ہے سوا جور جو کم ہوتا ہے
سننے والے ادھر آ دیکھ وہ وقت آ پہونچا
کہ اشاروں میں بیاں قصۂ غم ہوتا ہے
کیا قیامت ہے وہی دشمن جاں ہوتے ہیں
جن نگاہوں میں کچھ انداز کرم ہوتا ہے
تپش دل سے ہے ہنگامۂ ہستی بیدار
روح سو جاتی ہے کچھ درد جو کم ہوتا ہے
عجب آرام سے ہوں ترک تمنا کر کے
اب نہ ہوتی ہے خوشی مجھ کو نہ غم ہوتا ہے
کیف جو اصل میں ہے روح نشاط اے فرخؔ
وقت آخر وہی سرمایۂ غم ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.