لطف دنیا تو فقط دیدۂ نمناک میں ہے
لطف دنیا تو فقط دیدۂ نمناک میں ہے
شیخ صاحب کی نظر آج بھی افلاک میں ہے
جس نے تعمیر کیا مجھ کو لہو ہاتھوں سے
خاک ہو جاؤں کہ وہ شخص بھی اب خاک میں ہے
مجھ کو مجبور کیا ہے مری مجبوری نے
آج بھی میری انا کاغذی پوشاک میں ہے
میں جو بیمار ہوا اس نے عیادت کی ہے
خوئے رحمت بھی اسی قاتل سفاک میں ہے
اے دل ہجر زدہ مجھ کو نہ رسوا کرنا
شرم تھوڑی سی ابھی لہجۂ بے باک میں ہے
میری رسوائی میں شامل نہیں میرے چہرے
حاکم شہر مگر آج بھی اس تاک میں ہے
شہر بے مہر میں زندہ تھا فقط میں ساحلؔ
میرے احساس کا قاتل مری پوشاک میں ہے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 555)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.