لطف کا دیجے سبق حسن غریب آزار کو
لطف کا دیجے سبق حسن غریب آزار کو
پھینکیے خنجر کو رکھئے ہاتھ سے تلوار کو
اب یہ طوفان مصیبت کم نہ ہوگا حشر تک
نبض ڈوبے گی ڈبا کر آپ کے بیمار کو
میکدہ ہے وسعت آبادیٔ عالم کا راز
قطرے میں دریا نظر آتا ہے ہر مے خوار کو
اے مجاہد جہد رنگ خاکساری ہے ضرور
توڑنا لازم ہے پہلے اس بت پندار کو
ہاں مری دیوانگی بیگانۂ کلفت نہیں
آبلوں نے رکھ لیا ہے دل میں نوک خار کو
اپنی حد آخری پر علم بن جاتا ہے جہل
بے خودی لازم ہے اے دل حسرت دیدار کو
ہے سکون قلب مضطر شاہد تسکین درد
کیوں نہ ہو امید صحت کی ترے بیمار کو
یہ بھی اک اعجاز تھا مسعودؔ حسن دوست کا
دیکھتے ہی دیکھتے ہوش آ گیا بیمار کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.