معبدوں کی بھیڑ میں بجھتے یہ انسانی چراغ
معبدوں کی بھیڑ میں بجھتے یہ انسانی چراغ
کاش خود میں ڈھونڈھ پاتے کوئی لافانی چراغ
سب دشاؤں سے امڈتی آندھیوں کا شور سن
کم نہیں ہوگی ابھی تیری پریشانی چراغ
روشنی آنکھوں کی لے لے گا پری زادوں کا شہر
حد تو یہ ہے اور پھیلاتے ہیں عریانی چراغ
اس نے آ کر لو بڑھا دی خواہشوں کی ایک شب
میں نے پہلی بار دیکھا ایسا لا ثانی چراغ
دیکھیے روحوں کو ان سے روشنی کتنی ملے
رات دن جلتے ہیں جو مسجد میں جسمانی چراغ
بے قراری کا کوئی تو حل نکلنا چاہیے
آ تجھے لپٹا لوں میرے دشمن جانی چراغ
جلتے جسموں کی قطاریں دور تک جاتی ہوئیں
روشنی کے نام پر ہر سمت حیوانی چراغ
باغ و صحرا جس طرف جاؤں وہیں موجود تم
اک خدا کی سلطنت اور ایک انسانی چراغ
- کتاب : آخری عشق سب سے پہلے کیا (Pg. 63)
- Author : نعمان شوق
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.