مالی اداس ہے نہ یہ گلشن اداس ہے
مالی اداس ہے نہ یہ گلشن اداس ہے
آندھی میں صرف ایک نشیمن اداس ہے
جمنا کے تیر بجتی ہے نیروؔ کی بانسری
رانجھےؔ کا دیش ہیرؔ کا مدھوبن اداس ہے
مجھ کو سکھی کا امتحاں لینا تھا لے لیا
میری بلا سے گر مرا دامن اداس ہے
محلوں میں رہنے والے ذرا ہوشیار باش
محلوں کی سمت دیکھ کے نردھن اداس ہے
اب اے لٹے مسافرو معلوم تو کرو
رہبر کو کیا ہوا ہے جو رہزن اداس ہے
پیروں کی دھول ماتھے کا چندن بنی تو کیوں
بس یہ ہی سوچ کر تو برہمن اداس ہے
بد شکل اقتدار کو بد شکل کیوں کہا
دربار عدل میں بھی یہ درپن اداس ہے
امبر سے کہہ دو بادلوں کو اب رہا کرے
جھولوں کی رت ہے بہنوں کا آنگن اداس ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.