معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
طوفاں جو ڈبو دے کشتی کو کشتی ہی کے اندر ہوتا ہے
جو فصل خزاں میں کانٹوں پر رقصان و غزلخواں گزرے تھے
وہ موسم گل میں بھول گئے پھولوں میں بھی خنجر ہوتا ہے
ہر شام چراغاں ہوتا ہے اشکوں سے ہماری پلکوں پر
ہر صبح ہماری بستی میں جلتا ہوا منظر ہوتا ہے
اب دیکھ کے اپنی صورت کو اک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے
اس شہر ستم میں پہلے تو منظورؔ بہت سے قاتل تھے
اب قاتل خود ہی مسیحا ہے یہ ذکر برابر ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.