مانا کہ تجھ سے دور بہت جان جاں رہے
مانا کہ تجھ سے دور بہت جان جاں رہے
لیکن ترے خیال سے غافل کہاں رہے
تنگ اس پہ کیوں نہ وسعت کون و مکاں رہے
گر جائے جو نظر سے تمہاری کہاں رہے
مجھ سا نہ کوئی کشتۂ یاد خزاں رہے
لمحات سر خوشی بھی تو مجھ پر گراں رہے
سجدوں کے بعد کچھ تو وفا کا نشاں رہے
میری جبیں رہے نہ رہے آستاں رہے
یوں بے نیاز فکر بہار و خزاں رہے
دو چار روز جیسے کوئی میہماں رہے
راہ طلب میں مل نہ سکی منزل امید
گم کردہ راستے میں بہت کارواں رہے
پیہم تصورات محبت کا شکریہ
تم سے قریب تر ہی رہے ہم جہاں رہے
کچھ تو سمجھ سکوں گا نشیب و فراز دہر
اچھا ہے وقت مجھ پہ گراں ہے گراں رہے
توہین سجدہ ہے وہ اگر بے خودی نہیں
جب ہوش ہی رہا تو وہ سجدے کہاں رہے
پھیکی بہار بھی ہے مجھے آپ کے بغیر
اک آپ ہی ہوں ساتھ تو رنگیں خزاں رہے
اف میں وہاں بھی تشنۂ ذوق طلب رہا
لبریز لاکھوں شیشہ و ساغر جہاں رہے
اے موجؔ ہم نے غرق سفینہ ہی کر دیا
منت کش تلاطم و طوفاں کہاں رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.