مانوس ہو گئے ہیں اندھے پرانے گھر سے
مانوس ہو گئے ہیں اندھے پرانے گھر سے
باہر نہیں نکلتے ہم روشنی کے ڈر سے
سائے کی آرزو میں لپٹے ہوئے ہیں ہم سب
سنسان راستے میں آتش زدہ شجر سے
ہم خاک ہو کے بھی ہر موج ہوا سے الجھے
یعنی تری وفا کا سودا گیا نہ سر سے
کیا کیا نہ گل کھلیں گے کیا کیا نہ جشن ہوں گے
اس کشت آرزو میں بادل کبھی جو برسے
تیرے حضور تھے ہم اپنی نظر سے اوجھل
خود کو بھی آج دیکھا گر کر تری نظر سے
اب تک ہمیں گماں ہے صحرا پہ گلستاں کا
اک بار بے ارادہ گزرا تھا وہ ادھر سے
کیوں مطمئن کھڑے ہو آسودگان ساحل
دریا کا زور دیکھو گہرائی میں اتر کے
دل کا سکوں لٹا تو سر کیوں رہا سلامت
کیوں زندہ لوٹ آئے ہم عرشؔ اس کے در سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.