مایوسیوں کی ہجر میں اب انتہا نہیں
مایوسیوں کی ہجر میں اب انتہا نہیں
یہ خوف ہے کہ کہہ نہ اٹھے دل خدا نہیں
ہم سے سنو بتوں سے اگر آشنا نہیں
یہ ناخداۓ کشتیٔ دل ہیں خدا نہیں
سنتے کسی غریب کی کیوں التجا نہیں
سب ہے تمہارے قبضۂ قدرت میں کیا نہیں
یہ بے قراری دل بھی نہ خود بن سکا ہدف
ہاں ہاں تمہارے تیر کی کوئی خطا نہیں
اپنی زباں سے ہم اسے بے درد کیوں کہیں
یہ اور بات ہے کہ وہ درد آشنا نہیں
اب ہاتھ ظلم سے بھی اٹھایا غضب کیا
ظالم ترے ستم کا بھی اب آسرا نہیں
اب تک تو سوتے ہوتے مزے سے لحد میں ہم
افسوس ہے تمہاری ادا میں قضا نہیں
کافی ہے عرض حال کو حسرت بھری نگاہ
پردے کی بات منہ سے کہوں یہ روا نہیں
کیا ہو گیا شباب کہ جاتے ہیں رنگ طبع
صفدرؔ ترے کلام میں اب وہ مزا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.