ماضی کے گلستاں میں جب لے چلیں گی آنکھیں
ماضی کے گلستاں میں جب لے چلیں گی آنکھیں
لمحوں کی خوشبوؤں سے مہکا کریں گی آنکھیں
یادوں کے ابر جب بھی چھائیں گے ذہن و دل پر
بے ساختہ جھما جھم بہنے لگیں گی آنکھیں
الفاظ جب نہ ہوں گے ہونٹوں پہ ہوں گے تالے
ایسے میں دل کی ساری باتیں کہیں گی آنکھیں
معلوم ہے کہ اس نے آنا نہیں ہے واپس
ہر وقت پھر بھی اس کا رستہ تکیں گی آنکھیں
کتنے بھی ہوں سمندر اشکوں کے ان میں چاہے
دنیا کے سامنے پر ہنستی رہیں گی آنکھیں
دیوار تاکتے ہی گزرے گی رات شاید
نیندیں ہی روٹھ جائیں تو کیا کریں گی آنکھیں
ضدی ہیں اس قدر یہ سنتی نہیں ہے کہنا
بوجھل ہوں چاہے پلکیں پھر بھی جگیں گی آنکھیں
مجبور ہیں یہ شاید فطرت سے اپنی مدھومنؔ
مایوسیوں میں بھی کچھ سپنے بنیں گی آنکھیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.