مدہوشیوں سے کام لیا ہے کبھی کبھی
مدہوشیوں سے کام لیا ہے کبھی کبھی
ہاتھ ان کا ہم نے تھام لیا ہے کبھی کبھی
مے کش بھلا سکیں گے نہ ساقی کا یہ کرم
گرتوں کو اس نے تھام لیا ہے کبھی کبھی
ساقی نے جو پلائی ہماری ہی تھی خرید
ہم سے بھی اس نے دام لیا ہے کبھی کبھی
کیا بات ہے کہ ترک تعلق کے باوجود
ہم نے تمہارا نام لیا ہے کبھی کبھی
اے فرط شوق ہم نے تصور کے فیض سے
نظارہ ان کا عام لیا ہے کبھی کبھی
ٹھکراتا کیسے حسن کی اس پیش کش کو میں
مجبور ہو کے جام لیا ہے کبھی کبھی
دیکھا کبھی نہیں انہیں اے رازؔ بزم میں
جلوہ کنار بام لیا ہے کبھی کبھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.