محل سراؤں کے دیوار و در سے کیا لینا
محل سراؤں کے دیوار و در سے کیا لینا
ترے گداؤں کو لعل و گہر سے کیا لینا
میں اپنے ظرف کو اپنی نظر سے دیکھوں گا
کسی کی فکر کسی کی نظر سے کیا لینا
جو بال و پر کے سہارے اڑے پرندہ ہے
میں آدمی ہوں مجھے بال و پر سے کیا لینا
میں خود بشر ہوں بشر سے ہے دوستی میری
مجھے تصور فوق البشر سے کیا لینا
جو چل سکو تو چلو میرے ساتھ منزل تک
وگرنہ مجھ کو تمہارے سفر سے کیا لینا
اک آدمی کو بھی انسان جو بنا نہ سکے
معاف کرنا مجھے اس ہنر سے کیا لینا
مجھے زمین کے ذروں میں نور بھرنا ہے
مری تلاش کو شمس و قمر سے کیا لینا
اسے تو دھوپ کی چوکھٹ سے لوٹ جانا ہے
نسیم صبح کو پھر دوپہر سے کیا لینا
ہے کون بھوکا اندھیرا ہے کس کے گھر میں شفیعؔ
امیر شہر کو ایسی خبر سے کیا لینا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.