مہتاب ہے بہار ہے ساقی ہے جام ہے
مہتاب ہے بہار ہے ساقی ہے جام ہے
کتنا سکون دل کے لئے انتظار ہے
ہر راہ کہکشاں کی طرح ہے سجی ہوئی
ہم راہ میرے کون یہ محو خرام ہے
ساقی کی چشم مست پلاتی رہے جسے
اس بادہ کش کو جام سے پینا حرام ہے
کیوں کر نہ راہ عشق میں وہ سربلند ہو
قسمت میں جس کی گیسوئے جاناں کی شام ہے
کھلنے لگے ہیں پھول مرے دل کی شاخ پر
شاید کوئی حسیں ہے جو بالائے بام ہے
ہر سمت جلوہ ریز ہے حسن و جمال یار
اے بے خودیٔ عشق یہ کیسا مقام ہے
کرتے ہیں قتل سب کو نگاہوں کے تیر سے
ان مہ وشوں کے پاس یہی ایک کام ہے
ادنیٰ سا اک کرشمہ ہے تیری نگاہ کا
صحن چمن میں موسم گل جس کا نام ہے
خالی کوئی بھی ساغر دل رہ نہ جائے گا
شبیرؔ آج بادۂ دیدار عام ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.