مئے فراغت کا آخری دور چل رہا تھا
سبو کنارے وصال کا چاند ڈھل رہا تھا
وہ ساز کی لے کہ ناچتا تھا لہو رگوں میں
وہ حدت مے کہ لمحہ لمحہ پگھل رہا تھا
فضا میں لہرا رہے تھے افسردگی کے سائے
عجب گھڑی تھی کہ وقت بھی ہاتھ مل رہا تھا
سکوں سے محروم تھیں طرب گاہ کی نشستیں
کہ اک نیا اضطراب جسموں میں چل رہا تھا
نگاہیں دعوت کی میز سے دور کھو گئی تھیں
تمام ذہنوں میں ایک سایہ سا چل رہا تھا
ہوائے غربت کی لہر انفاس میں رواں تھی
نئے سفر کا چراغ سینوں میں جل رہا تھا
بھڑک رہی تھی دلوں میں حسرت کی پیاس لیکن
وہیں نئی آرزو کا چشمہ ابل رہا تھا
بدن پہ طاری تھا خوف گہرے سمندروں کا
رگوں میں شوق شناوری بھی مچل رہا تھا
نہ جانے کیسا تھا انقلاب سحر کا عالم
بدل رہی تھی نظر کہ منظر بدل رہا تھا
- کتاب : meyaar (Pg. 355)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.