میکدے کی شرط دور بادہ و ساغر کی قید
میکدے کی شرط دور بادہ و ساغر کی قید
ایک میری تشنگی اور اس پہ دنیا بھر کی قید
عشق میں صحرا نوردی کا بہانہ چاہئے
وحشت دل کے لئے اچھی نہیں ہے گھر کی قید
ماورا عرش ہے میرے تخیل کی اڑان
حرف بے معنی سمجھتا ہوں میں بال و پر کی قید
داعی سوز جگر ہو کیوں نہ پروانے کی خاک
شمع محفل کے لئے ہے موم کے پیکر کی قید
زندگی کا ماحصل ہے اضطراب زندگی
جادۂ الفت میں لازم ہے دل مضطر کی قید
آدمی کی خواب گاہیں ہیں صلیب و تیغ بھی
نیند سے بے تاب آنکھوں کو نہیں بستر کی قید
کیا جہان رنگ و نکہت کی قسم کافی نہ تھی
کیوں پئے سوگند رکھی تم نے اپنے سر کی قید
وقت کے سیل رواں کے سامنے کچھ بھی نہیں
بادبان عزم کی بندش ہو یا لنگر کی قید
سر بہ سجدہ جب کبھی ذوق جبیں سائی ہوا
جذب الفت نے لگا دی اس کے سنگ در کی قید
کیا کسی دریا کی لہریں گن نہیں سکتا تھا میں
خواب میں رکھی گئی کیوں ریت کے منظر کی قید
میری نظروں میں محبت وہ عبادت ہے صباؔ
جس عبادت میں نہیں ہے پھول اور پتھر کی قید
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.