میخانے پہ چھائی ہے افسردہ شبی کب سے
میخانے پہ چھائی ہے افسردہ شبی کب سے
ساغر سے گریزاں ہے خود تشنہ لبی کب سے
اے سایۂ گیسو کے دیوانو بتاؤ تو
معیار جنوں ٹھہری راحت طلبی کب سے
چوسا ہے لہو جس نے برسوں مہ و انجم کا
انساں کا مقدر ہے وہ تیرہ شبی کب سے
اک حشر سا برپا ہے زنداں سے بیاباں تک
پابند سلاسل ہے ایذا طلبی کب سے
جس کے لیے ساز اپنا سر پھوڑتے پھرتے ہیں
نغموں کی وہ دولت ہے سینے میں دبی کب سے
جو دار و رسن کو بھی خاطر میں نہیں لاتی
تعزیر کے قابل ہے وہ بے ادبی کب سے
فرصت غم دوراں سے ملتی ہی نہیں ارشدؔ
دل میں لیے پھرتے ہیں موج عنبی کب سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.