میں اگر نقش بناؤں وہ مٹا سکتا ہے
عشق آندھی ہے گھنے پیڑ گرا سکتا ہے
خواب کیا ہے یہ دہکتا ہوا انگارہ ہے
چشم برفاب میں بھی آگ لگا سکتا ہے
صرف آنکھیں ہی نہیں سارا بدن خستہ ہے
دیکھ یہ ہجر کسی سمت سے آ سکتا ہے
میرے سینے پہ لگے زخم گواہی دینا
پھول کھل جائے تو ماحول سجا سکتا ہے
وقت مرہم ہے یہ ہنستا ہے ہنساتا ہے میاں
یہ تو تقدیر کے ماتم کو بھلا سکتا ہے
کیا خبر کون ہے صوفی ہے قلندر ہے کہ غوث
میرے اندر ہی تو ہے مجھ کو بلا سکتا ہے
کتنا تنہائی کا سناٹا ہے چاروں جانب
سانس لینے سے بھی اک شور سا آ سکتا ہے
خود سے بچھڑا تو ترے در پہ چلا آیا ہوں
ایک تو ہے جو مجھے مجھ سے ملا سکتا ہے
میں محبت ہوں ازل اور ابد مجھ میں ہیں
مجھ سوا کون صفیؔ مجھ کو سما سکتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.