میں اپنی وسعتوں کو اس گلی میں بھول جاتا ہوں
میں اپنی وسعتوں کو اس گلی میں بھول جاتا ہوں
نہ جانے کون سے جادو کے ہاتھوں میں کھلونا ہوں
سفر یہ پانیوں کا جب مجھے بے آب کرتا ہے
میں دریا کی روپہلی ریت کو بستر بناتا ہوں
سوالوں کے کئی پتھر اٹھائے لوگ بیٹھے ہیں
میں اپنا ننھا بچہ قبر میں دفنا کے لوٹا ہوں
نہ جانے کس فضا میں کھو گیا وہ دودھیا آنچل
کہ جس کے فیض سے میں کتنی آنکھوں کا اجالا ہوں
وہ سورج میرے چاروں سمت ہے پھیلا ہوا لیکن
میں اکثر اجنبی دھندلاہٹوں میں ڈوب جاتا ہوں
لپٹ جاتی ہے میری انگلیوں سے خود شفق آ کر
سحر کی سمت جب میں اپنے ہاتھوں کو بڑھاتا ہوں
کوئی تو ہے کہ جو مجھ کو اجالے بخش جاتا ہے
بظاہر میں کسی تاریک ٹاپو میں اکیلا ہوں
مرے سینے میں عنبرؔ اک دھنک سی پھیل جاتی ہے
میں اپنے آنسوؤں کی چاندنی میں شعر لکھتا ہوں
- کتاب : doob (Pg. 53)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.