میں اور ہم آغوش ہوں اس رشک پری سے
میں اور ہم آغوش ہوں اس رشک پری سے
کب اس کی توقع مجھے بے بال و پری سے
جاگیں گے نصیب اپنے نہ آہ سحری سے
آگاہ ہیں اس آہ کی ہم بے اثری سے
ہے وصل کی خواہش تجھے اس رشک پری سے
حیراں ہوں میں اے دل تری بیہودہ سری سے
ایمان میں زاہد کے بھی آ جائے تزلزل
دیکھے جو مرا بت اسے کافر نظری سے
ان آنکھوں کے رستے سے مرے دل میں چلے آئے
اس طرح غرض پہنچے وہ خشکی میں تری سے
قاصد سے نہ برداشت ہوئے ان کے مظالم
باز آیا وہ آخر مری پیغامبری سے
آنچل کی ہوا دے کوئی اس غنچۂ دل کو
وا ہو نہیں سکتا یہ نسیم سحری سے
یہ شیشۂ دل دیں تو ہم اے طفل پری رو
پر اس میں نہ بال آئے تری بے ہنری سے
ہوش اڑ گئے جاتا رہا قابو سے دل اپنا
آنکھیں جو مری چار ہوئیں ایک پری سے
کب ہاتھ اٹھا کر میں دعا وصل کی مانگوں
فرصت ہے جنوں میں کب انہیں جامہ زری سے
بازو بھی ہلائے بہت اور پاؤں بھی پٹکے
پر اڑ نہ سکی چال تری کبک دری سے
رنجورؔ نہ ہوگا مرض عشق سے جاں بر
اے چارہ گر اب ہاتھ اٹھا چارہ گری سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.