میں بھی ہوں تنگ کب سے تم بھی ہو تنگ کب سے
میں بھی ہوں تنگ کب سے تم بھی ہو تنگ کب سے
حالات کی سپہ سے جاری ہے جنگ کب سے
میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے ہر دم
خاموش ہو گئے ہیں وہ جل ترنگ کب سے
دشت سفر میں کتنے طوفان سر سے گزرے
تنہا بھٹک رہی ہے کٹ کر پتنگ کب سے
سورج کی روشنی ہے جگنو نہ لمس تاباں
ہے تن بدن سے لپٹی اندھی سرنگ کب سے
سب لوگ پیاس کے ہیں جنگل میں غرق شاید
رہ رہ کے چیختا ہے یہ انگ انگ کب سے
خوشبو کے سلسلے کا رشتہ تھا جس سے قائم
لے کر ہجوم میں ہے وہ بھی تو سنگ کب سے
چل کر ظفرؔ چھڑا دیں کچھ آب تازہ دے دیں
ہر لحظہ کھا رہا ہے ذہنوں کو زنگ کب سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.