میں بھی انساں تو بھی انساں فرق مگر اتنا سا ہے
میں بھی انساں تو بھی انساں فرق مگر اتنا سا ہے
مجھ کو گہری چوٹ لگی ہے تو نے پتھر مارا ہے
جو بھی پایا اس دنیا سے بھیک کی صورت پایا ہے
ساری عمر کی محرومی نے جب دامن پھیلایا ہے
اک قطرہ دریا کی دولت اک قطرہ پلکوں کا دھن
چاروں طرف وجود آدم آسمان سے اونچا ہے
مجھ کو چھو کر جسم پہن لیتے ہیں جس کے خد و خال
وہ ہر دم میرے سائے سے روح بچا کر چلتا ہے
غور کرو تو ان دونوں میں ایسا کوئی فرق نہیں
خوشیاں بھی جی کر دیکھی ہیں غم بھی چھو کر دیکھا ہے
اس بستی میں ڈھونڈنے نکلا جب اپنے پن کے سائے
جسم ملا باہر سے ٹوٹا دل اندر سے بکھرا ہے
آتے جاتے تھم جاتی ہے اکثر قدموں کی آہٹ
اندر کی جانب ہی گھر کا ہر دروازہ کھلتا ہے
اس سے کوئی بات نہ کیجے بس اس کی سنتے رہئے
جس نے آنکھیں موند کے جلتے سورج کو جھٹلایا ہے
جانے کیا کیا پینا پڑتا ہے برساتوں کو پروازؔ
تب جا کر بنجر دھرتی پر کوئی پربت اگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.