میں برہا کی نار جسے ہر پانی راس نہیں
میں برہا کی نار جسے ہر پانی راس نہیں
تو ٹھنڈا میٹھا ہے لیکن مجھ کو پیاس نہیں
یوں سنتے ہیں جیسے خوابوں کی آواز ہو تم
یوں بیٹھے ہیں بیٹھے ہونے کا احساس نہیں
سارے سکوں پر ہے دونوں جانب تیرا نقش
ایسے میں تو جھگڑا ہی ممکن ہے ٹاس نہیں
کوئی جان سے پیارا رشتہ جب آزار بنے
بس تھوڑا سا ناخن کاٹا جائے ماس نہیں
میں نے باغ لگایا اس میں پھول اور پھل تو ہیں
دنیا کے تلوے سہلانے والی گھاس نہیں
کوئی دھڑکن جیسا شخص اچانک چھوڑے ساتھ
غصہ کر لینا پر اپنے دل کا ناس نہیں
تو ہے میرے دل سے لپٹی پھولوں والی بیل
خوشبو جیسی بیٹی تو امید ہے یاس نہیں
ان آدھی باتوں نے پورے شعر بنائے ہیں
اب جن کے بقیہ آدھے کی بالکل آس نہیں
ہمت ہے تو ہجرت کر اس دنیا داری سے
گھر کو جنگل کر دینا کوئی بن باس نہیں
ہر خوشبو کو ان پر ضائع ہوتے دیکھا ہے
جن کی قسمت میں اپنی مٹی کی باس نہیں
یہ جو اندر گراتے رہتے ہیں ان کو باندھ
دنیا وہ ہڈی ہے جس پر کوئی ماس نہیں
اس لفظی سیرابی کو بے بس کی چیخ سمجھ
کچھ پیاسوں کو کہنا پڑ جاتا ہے پیاس نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.