میں چاہتا ہوں سبھی ستم گر کی سب خطاؤں کو چھوڑ دینا
میں چاہتا ہوں سبھی ستم گر کی سب خطاؤں کو چھوڑ دینا
میں چاہتا ہوں نئے سفر میں گزشتہ لمحوں کو چھوڑ دینا
اگرچہ تم یہ سمجھ سکو کہ ہمارے دکھ کا علاج کیا ہے
بہیلیے سے رہا کرا کے سبھی پرندوں کو چھوڑ دینا
اگر ملو تم کہیں بھی ان سے تو پھر محبت میں فرض ہے یہ
اداس ماتھے کو چوم لینا حسین ہونٹھوں کو چھوڑ دینا
تمہیں اجازت نہیں ہے گر یہ کہ اس کی بانہوں میں رو سکو تم
تو پھر تمہارا نہیں ہے گھر وہ تم ان مکانوں کو چھوڑ دینا
ہمارے کمرے سے اب ہٹا دو سبھی نصابوں کی یہ کتابیں
کہیں جو دکھ جائیں میرؔ و غالبؔ تو ان کتابوں کو چھوڑ دینا
ہتھیلیوں سے جبیں تلک تم ہزار بوسے تو مانگ لینا
ندی کنارے ہی سیر کرنا پر اس کی لہروں کو چھوڑ دینا
تمہاری یادیں اگر جو چھوٹیں تو پھر سمجھنا کہ سانس چھوٹی
مگر ہماری ہے ایک خواہش تمہاری یادوں کو چھوڑ دینا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.