میں چاہتا ہوں تراشوں ضعیف ہونے تک
میں چاہتا ہوں تراشوں ضعیف ہونے تک
جوان قافیے بوڑھی ردیف ہونے تک
ہم اس کی شرط پہ قائم رہے مگر وہ شخص
بدل چکا تھا ہمارے شریف ہونے تک
جلائے جاتے ہیں ایندھن کے طور پر اک دن
جو سایہ دیتے ہیں سب کو نحیف ہونے تک
جواں بدن کے مصائب عجب مصائب ہیں
لہو رلاتے ہیں دل کو ضعیف ہونے تک
دیا بجھاتے ہی کھل جائیں گے خیال کے در
یہ بند رہتے ہیں منظر لطیف ہونے تک
بنا ہی لیں گے مچھیرے مکان شہروں میں
چمکتے دریا کا پانی کثیف ہونے تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.