میں چاہتا تو یہی تھا کہ کچھ نیا کروں میں
میں چاہتا تو یہی تھا کہ کچھ نیا کروں میں
مگر یہ ہو نہ سکا اس سے مل کے کیا کروں میں
یہ قرض مجھ پہ جو اس زندگی کا ہو گیا ہے
کوئی بتائے مجھے کس طرح ادا کروں میں
یہ عشق میری طبیعت کو سازگار نہیں
یہ لوگ کہتے ہیں اب کام دوسرا کروں میں
مزہ تب آئے سفر میں اگر کچھ ایسا ہو
وہ مجھ کو بڑھ کے اٹھاتا رہے گرا کروں میں
عجب مقام پہ لائی ہے زندگی مجھ کو
سنوں دماغ کی یا دل کی اب سنا کروں میں
تو کیا یہ خوف ہے اپنی شناخت کھو دوں گا
تو آئنے سے بھی ہر روز کیا ملا کروں میں
ڈھلک نہ جاؤں میں اک بوند بن کے آنسو کی
کسی کی آنکھ میں نشتر سا کیوں چبھا کروں میں
گزار ڈالوں میں اب رات چین سے سو کر
نہ خواب دیکھوں نہ اب کوئی رتجگا کروں میں
تو میرے حق میں یہی فیصلہ ہوا ہے ابھی
تو انتظار ابھی اور آپ کا کروں میں
بس اک ذرا سا اشارہ ادھر سے ہو تو ادھر
درون ذات قیامت کوئی بپا کروں میں
وہ مجھ کو اوڑھ لے یاورؔ کبھی قبا کی طرح
وہ مجھ کو ڈھانپ دے اس وقت جب کھلا کروں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.