میں دشت زندگی کو چلا تھا نکھارنے
میں دشت زندگی کو چلا تھا نکھارنے
اک قہقہہ لگایا گزرتی بہار نے
گزرا ہوں جب سلگتے ہوئے نقش چھوڑتا
دیکھا ہے مجھ کو غور سے ہر رہ گزار نے
میکش نے جام زہر ہی منہ سے لگا لیا
پاگل بنا دیا جو نشے کے اتار نے
انسان حد نور سے آگے نکل گیا
چھوڑا مگر نہ اس کو لہو کی پکار نے
ان مہ رخوں کی ہم سے جو یہ بے رخی رہی
جانا پڑے گا چاند پہ کچھ دن گزارنے
کرتے ہیں وہ ستارے بھی اب مجھ پہ چشمکیں
چمکا دیا جنہیں مری شب ہائے تار نے
ان گل کدوں کو بھی کوئی اے کاش دیکھتا
جھلسا ہے جن کو آتش فصل بہار نے
لاؤں کہاں سے ان کے لیے اور غم گسار
جو غم دئے ہیں مجھ کو مرے غم گسار نے
میری سرشت میں تھی محبت کی پرورش
مجھ کو قلم دیا مرے پروردگار نے
بخشا ہے اپنے حسن کا پرتو مجھے کرمؔ
فطرت کے ہر جمیل و حسیں شاہکار نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.