میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں
میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں
بس اس زبان کی بے پردگی سے دبتا ہوں
میں دور دور سے خود کو اٹھا کے لاتا رہا
کہ ٹوٹ جاؤں تو پھر دور تک بکھرتا ہوں
یہ سب اشارے مرے کام کیوں نہیں آتے
یقیں کی مانگ کو رسم گماں سے بھرتا ہوں
میں اتنی دور نکل آیا شہر ہستی سے
خود اپنی ذات سے اکثر لپٹ کے روتا ہوں
ابھی زمانہ مرے ساتھ چلنے والا ہے
میں اس خیال سے جیتا ہوں اور نہ مرتا ہوں
زمانہ ڈھونڈ رہا ہے مجھے مکانوں میں
میں شہر ذات کے اندھے کنویں میں رہتا ہوں
ہمارے راستے جب سے جدا ہوئے ہیں سعیدؔ
میں اپنی ذات کو محسوس کر تو سکتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.